عمران خان کا یہ انجام کیوں، کس نے کردار ادا کیا؟
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
عمران
خان پاکستان تحریک انصاف کے بانی ،
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ہیں جس کی سربراہی میں اس نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا
تھا۔ عمران خان پاکستان کے سابق وزیراعظم
بھی ہیں۔ یہ باتیں تو عمران خان کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے والے دوست بھی بخوبی
جانتے ہوں گے۔ لیکن میں آج آپ کو وہ باتیں بھی بتاؤں گا جو باتیں شاید پی ٹی آئی
کے جذباتی کارکنان اور عمران خان سے دل و جان سے محبت کرنے والے بھی نہیں جانتے
ہوں گے۔
جیسا
کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ عمران خان 25 نومبر1952 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی
تعلیم کے بعد عمران خان نے اپنے کرکٹ کیریئر کا آغاز 1971 میں انگلینڈ کے خلاف
ٹیسٹ میچ کھیل کر کیا۔ عمران خان ابتداء ہی سے کافی جذباتی اور اپنی بات منوانے کے
عادی رہے ہیں۔ اکثر اوقات انہوں نے اس بات کو ثابت بھی کیا۔ اس دور کے کرکٹ کھلاڑی
اور آفیشل اپنی یاداشتیں بیان کرتے ہوئے عمران خان کی اس ہٹ دھرمی کے واقعات کو بھی
زبان پر لاتے ہیں۔ عمران خان کپتان کی ہدایات کو اکثر نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔
وہ جہاں چاہتے فیلڈنگ اور جب چاہتے بولنگ کیلئے زبردستی بال حاصل کر لیا کرتے تھے
اور کپتان بے چارہ دیکھتا رہ جاتا۔ یہی روش انہوں نے 1982 میں کپتان بننے کے
بعدبھی جاری رکھی۔ پہلے وہ کپتان کی حکم عدولی کیا کرتے تھے پھر انہوں نے کرکٹ
بورڈ اور سلیکشن کمیٹی کے اختیارات میں
دخل اندازی شروع کر دی۔ وہ اپنی ٹیم خود منتخب کیا کرتے تھے۔ جب چاہتے کسی کھلاڑی
کو نکال کر اپنی مرضی کا نیا کھلاڑی لے آتے
اور لوگ ہکا بکا رہ جاتے کہ کون کھلاڑی ہے جس کا انہوں نے پہلے نام تک سنا
نہیں ہوتا تھا۔ اس کی یہ حرکات چیں بہ جیں ہوکر
پھر خاموش سے برداشت کر لی جاتی تھیں۔بعض اوقات بھری پریس کانفرنس میں بھی
وہ اپنے آفیشلز سے اختلاف کر کے اپنی بات منوا لیتے تھے اور بے چارے آفیشلز کان
کھجا کر خاموش ہو جاتے تھے۔ ان کی ان حرکات کے پیچھے کون تھاشایدکبھی کسی نے سوچانہ ہو گا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے
بلا شرکت غیرے حکمران اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ضیاءالحق کرکٹ میں بہت دلچسپی
رکھتے تھے اور کرکٹ میچز بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ ضیاء الحق سٹیڈیم میں بھی میچ
دیکھنے پہنچ جایا کرتے تھے۔ ایک بار تو وہ انڈیا میں بھی میچ دیکھنے سٹیڈیم پہنچ
گئے جسے بعد ازاں کرکٹ ڈپلومیسی کا نام دیا گیا اور اپنے پڑوسی ملک سے معاملات میں
خوشگوار تبدیلی لانے کا ایک عمل قرار دیا گیا ۔ حالانکہ اندرون خانہ حالات جاننے
والے بخوبی مانتے ہیں کہ ضیاء الحق کو انڈیا سے حالات معمول کی سطح پر لانے میں
کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کی تو بقا ہی اسی میں تھی کہ حالات کشیدہ رہیں اور
وہ قوم کو ڈرا ڈرا کر ان پر حکومت کرتے رہیں۔ وہ ان کا کرکٹ سے والہانہ لگاؤ ہی
تھا کہ انہیں انڈیا تک کھینچ لایا یوں انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کر لئے ، شوق
بھی پورا کر لیا اور قوم کو بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا کہ "لو جی پھڑ
لو جنے وچ دم اے"۔ ضیاء الحق اور ان کے اہلخانہ اپنے اسی شوق کے باعث عمران خان کے "
یوتھئے" تھے۔وہ متعدد بار عمران خان کو اپنے گھر بلا کر ملتے تھے یوں ان کے
بیچ کافی یارانہ پیدا ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کرکٹ بورڈ کے ذمہ داران عمران
خان کی ہٹ دھرمی برداشت کرنے پر مجبور تھے۔
1992
کے ورلڈ کپ میں انہونی جیت کے بعد تو عمران خان پوری قوم کے لاڈلے بن گئے اور
عمران خان بھی قوم کی نبض سے کھیلنے کا فن خوب جانتے تھے۔ انہوں نے اس جیت کو اپنے
لئے ایک موقع کے طور پر لیا اور پورے ملک میں واہ واہ ہونے لگی۔ حالانکہ 1992 کے
ورلڈ کپ میں بطور کھلاڑی ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ ورلڈ کپ سے کچھ
عرصہ قبل بطور کھلاڑی ان کی مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں ٹیم سے نکالنے
کا فیصلہ بھی ہوا لیکن پھر یہ کہہ کر واپس لے لیا گیا کہ ورلڈ کپ میں کم عرصہ بچا
ہے اگر اس موقع پر کپتان تبدیل کیا گیا تو شاید ٹیم کی کارکردگی پر برا اثر پڑے
گا۔ اگر وہ ایک عام کھلاڑی ہوتے تو کب کے نکالے جا چکے ہوتے۔ان کا نصیب ہی تھا کہ
وہ ورلڈ کپ کے مقابلے میں شریک ہوئے اور پھر ٹیم نے حیران کن طور پر یہ ٹورنامنٹ
جیت بھی لیا۔
عمران
خان کی اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے طاقتور طبقوں کی نظر انتخاب ان پر آ کر ٹھہر
گئی۔ کراچی کے ناگفتہ بہہ حالات کے باعث الطاف حسین ناقابل قبول ہو چکے تھے، پیپلز
پارٹی تو ویسے ہی اینٹی ایسٹیبلشمنٹ ہونے کے باعث ناقابل قبول تھی جبکہ نواز شریف
بھی اپنے باغیانہ خیالات کے باعث گڈبک سے نکل چکےتھے تو ان سب کے متبادل کے طور پر
عمران خان کو چنا گیا۔ پھر اپنے منصوبے پر
عمل درآمد کیلئے کس طرح سے جنرل حمید گل، عمران خان اور دیگر نے اس وقت کے سب سے
مقبول سماجی رہنما عبدالستار ایدھی سے ملاقات کی اور اپنے منصوبے پر عمل در آمد
کیلئے ان سے تعاون مانگا مگر عبدالستار
ایدھی کے انکار پر انہیں جان سے مارنے اور پھر اس کا الزام ایم کیو ایم پر لگانے
کی دھمکی دی گئی۔ جس پر عبدالستار ایدھی اچانک جلاوطن ہو کر لندن جا پہنچے اور وطن
واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے اس منصوبے کا انکشاف کر کے اس کا دھڑن تختہ کر دیا
تھا۔ جس کے باعث یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوگیا تھا۔
عمران
خان نے 1996 میں باقاعدہ طور پر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور پاکستان تحریک
انصاف کے نام سے جماعت بنا لی۔ 1999 میں نوازشریف حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد مشرف
دور میں بھی انہیں وزیراعظم بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ لیکن تمام تر ظلم و بربریت
کے باوجود وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اقلیت میں تبدیل نہ کرسکے جس کی وجہ
سے انہیں کسی نامور سیاسی قوت کی بے ساکھیوں کی ضرورت پڑی وہ قوت عمران خان کو
وزیراعظم کے طور پر قبول کرنے پر کسی صورت راضی نہ ہوئی تو یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔
لیکن خان صاحب کے ناز بخوبی اٹھائے جاتے رہے۔ حتیٰ کہ 2011 آ گیا۔ اس کے بعد تو
سبھی کو معلوم ہے کہ کس طرح ان کے ناز اٹھا کر انہیں آگے بڑھنے کیلئے بے ساکھیاں
فراہم کی گئیں۔ گرم ہوا کے تھپیڑوں سے بچایا گیا بقول پرویز الٰہی ان کی نیپیاں
تبدیل کی گئیں۔ انہیں لانچ کرنے اور مسند اقتدار تک لانے کیلئے بہت محنت اور
سرمایا لگایا گیا۔ طاقت کا ہر چشمہ یعنی ادارہ ان کے پیچھے لا کھڑا کیا گیا۔ یوں
وہ 2018 میں بالآخر اقتدار میں آ ہی گئے۔ منصوبہ عمران خان کو قریب سے دیکھنے والے
بتاتے ہیں کہ یہ 10 سالہ منصوبہ تھا اس کے بعد منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ لوگ پی
پی پی اور ن لیگ کو بھول جائیں گے اور پھر اگلے پچیس تیس سال عمران خان ہی حکمرانی
کریں گے اور یہ باتیں طاقتور لوگ عمران خان کو باور بھی کرایا کرتے تھے۔ یہی وجہ
ہے کہ عمران خان کی ہٹ دھرمی کی عادت مزید پختہ ہو گئی۔
پھر
اچانک 2022 میں ان کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے باعث جب ملک کی معیشت تباہ ہو
گئی اور ملک عملی طور پر ڈیفالٹ کے کنارے آ کھڑا ہوا تو منصوبہ ساز کومے میں جانے
سے پہلے ہوش میں آئے اور ملک کو بچانے کیلئے اپنے آپ کو غیرجانبدار بنا لیا کہ
سارے اپنا اپنا دیکھ لو ۔ یوں اپوزیشن جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد لا کر عمران
خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ طاقتور طبقے غیرجانبدار ہونے کا دعویٰ کرنے کے
باوجود اپنی پہلی محبت سے دستبردار ہونے
کو تیار نہ تھے یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن میں جانے کے باوجود کوئی بھی عمران خان کو
میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔حکمرا ن اتحاد (پی ڈی ایم) چاہنے کے باوجود انہیں
انصاف کے کٹہرے تک لانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان اپنے آپ
کو ناقابل تسخیر اور قانون سے بالا سمجھنے لگے۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ جو کچھ کر
گزریں گے کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جو چاہتے بلا
کسی تردد کہہ ڈالتے اور کر گزرتے تھے۔
اور
پھر عمران خان نے حسب عادت ایسا منصوبہ بنا ڈالا جو طاقتور حلقوں بشمول قوم کو کسی
صورت منظور نہ تھا۔ یوں وہ اپنے بچھائے گئے جال میں خود ہی پھنس گئے۔ آج حالت یہ
ہو گئی ہے کہ انہیں اپنی ضمانت کیلئے لوگ نہیں مل رہے ، ان کے سب سے بڑے وکیل بابر
اعوان ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں روزانہ درجنوں اہم رہنما پاکستان تحریک انصاف اور
انہیں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ زمان پارک ویرانے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ خود ان کے
خلاف سنگین مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ ان کا نام بھی نوفلائی لسٹ میں شامل کیا جا
چکا ہے۔ ان کی گرفتاری بھی اب دنوں کا کام رہ گیا ہے ۔ وہ جلد ہی پس زندان رہ کر
اپنے خلاف درج مقدمات کا سامناکر رہے ہوں گے۔ ان کا مستقبل کیا ہوتا ہے یہ سب
آئندہ چند روز میں کھل کر سامنے آ جائے گا۔ کیونکہ جہاں انہیں ان کے کئے کی سزا
دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں وہیں پر انہیں بچانے کیلئے امریکی اور مغربی لابیاں
بھی متحرک ہو چکی ہیں۔
عمران
خان یہاں تک کیسے پہنچے تو اس کا جواب یہ مضمون پڑھنے کے بعد جاننا زیادہ آسان ہو
چکا ہے۔ وہ جواب یہ ہے کہ عمران خان کو ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا گیا اور یہ تصور
ان کے ذہن میں بٹھا دیا گیا کہ وہ پاکستان اور آئین پاکستان سے بالاتر ہیں آپ جو
کچھ کریں گے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی انجام سے
بلا خوف ہو کر جو چاہا کرتے رہے اور بالآخر 9 مئی کے مکروہ عمل نے عمران خان کو
انجام تک پہنچا دیا۔
یہ بھی پڑھیں:
عمران
خان کا قوم سے خطاب۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد
ملکانی
بڑی سازش ناکام، پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز... تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے