بڑی سازش ناکام، پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز... تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

بڑی سازش ناکام، پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز... تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

بڑی سازش ناکام، پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرنے کے بعد جیسے ہی موبائل آن کیا تو ہر طرف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری خبروں کا طوفان برپا تھا۔ فوری طور پر سوشل میڈیا کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی اس گرفتاری پر بہت سیخ پا ہے اور وہ سخت احتجاج کیلئے اپنے ورکرز کو مختلف مقامات پر بلانے کیلئے اعلانات کر رہی ہے۔ ویڈیو کلپس بھی دیکھنے کو ملے کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اپنے ورکرز کو کورکمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو کی جانب لے جانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ یہ باتیں سن کر حیرت بھی ہوئی کہ اگر احتجاج ہی کرنا ہے تو ان حساس مقامات پر جا کر ہی کیوں یہ تو کسی جگہ بھی ہو سکتا ہے۔ پھر خیال آیا کہ چونکہ عمران خان کو رینجرز نے گرفتار کیا ہے اس لئے آرمی کے خلاف کچھ غصہ ہو گا اور پی ٹی آئی رہنما کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج کر کے اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر آن کی آن میں چشم فلک نے دیکھا کہ یہ مظاہرین کورکمانڈر ہاؤس میں گھسے توڑ پھوڑ کی، آگ لگائی، لوٹ مار کی اور یہ جا وہ جا۔ حتیٰ کہ کوکمانڈر ہاؤس میں موجود مسجد کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اسی دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مظاہرین جی ایچ کیو میں بھی داخل ہو گئے ہیں اور وہاں بھی املاک کو نقصان پہنچایا اور غائب ہو گئے۔ اسی طرح میانوالی میں بھی مطاہرین روایتی طور پر احتجاجوں کیلئے مشہور جہاز چوک کو چھوڑ کر ڈھائی تین کلومیٹر دور ایم ایم عالم ائیربیس پہنچ گئے جہاں پر ائیربیس کے سامنے لگے ایم ایم عالم کے مشہور زمانہ جیٹ کے ماڈل  اور ائیربیس کے گیٹ پر حملہ آور ہوئے  توڑ پھوڑ کی اور جیٹ کے ماڈل کو آگ لگا دی۔   فیصل آباد میں بھی پاکستانی کی خفیہ ایجنسی کے دفتر پر دھاوا بولا گیا، پشاور میں کورکمانڈر ہاؤس کا محاصرہ کیا گیا ۔ دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا گیا۔ راستے میں آنے والی شہدا کی یادگاروں، ان کی تصاویر ، قرآنی آیات کے بینر اور قطبوں کو بھی نہ بخشا گیا۔

 

ان تمام واقعات کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سب کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما ضرور ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ اس سازش کے منصوبہ سازوں کو اس سازش کی کامیابی کا بھی یقین تھا وگرنہ صرف ایک سیاسی احتجاج کیلئے کوئی بھی جماعت اس حد تک نہیں جاتی کہ اگر ناکامی ہوئی تو پھر سیاست تو کیازمین بھی تنگ ہو جائے  گی۔  لہذا مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ سازش تھی جو ناکام ہوئی۔ سیکیورٹی کے ادارے اور ان کے سربراہان کی بہترین حکمت عملی تھی کہ اس سازش کو کامیابی سے ناکام بنایا ، ورنہ خاکم بدہن یہ ملک و قوم کیلئے کسی صورت نیک شگون نہ ہوتا۔ ملک کو سری لنکا بنانے کے خواہش مندوں کے منصوبے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے اور پارہ پارہ کرنے تک پہنچ جاتے۔

 

کورکمانڈر ہاؤس یا جناح ہاؤس جو نام بھی دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے کس نام سے پکاریں لیکن اس پر حملے ، آگ لگانے نفرت انگیز نعرے لگانے ، سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنے اور گالیاں دینے کی ویڈیو وائرل کرنے ، کور کمانڈر کی یونیفارم کو چوک پر لہرانے اور اس کا نمبر بتانے اور خاص نعرے لگانے کا مطلب صرف احتجاج ہر گز نہیں ہو سکتا۔ اس میں جاننے والوں کیلئے بہت بڑا پیغام ہوتا ہے جو ہر ذی شعور بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح ملکی کی حفاظت کی ذمہ دار افواج پاکستان کے ہیڈکوارٹر پر حملہ بھی صرف احتجاج نہیں یہ بھی اسی سازش کی ہی کڑی ہے جس کیلئے کورکمانڈر کے گھر کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اسی طرح جیسے میں نے آپ کو بتایا کہ میانوالی میں بھی روایتی طور احتجاج کیلئے استعمال ہونے والے جہاز چوک کی بجائے ڈھائی تین کلومیٹر دور جا کر ایئر بیس اور ایئرجیٹ پر حملہ آور ہونا اور آگ لگانا اور ایئر بیس کی دیواروں کو گرا دینا کوئی عام احتجاج نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ اگر صرف جہاز کو ہی آگ لگانے مقصود تھا تو ایک جہاز کا ماڈل تو جہاز چوک میں بھی موجود ہے مگر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ اس سے کیا سبق اخذ کیا جا سکتا ہے؟ میرے خیال میں تو یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا جس کے پیچھے ملک دشمن قوتیں کارفرما تھیں، ایسا احتجاج کوئی بھی محب وطن ہرگز نہیں کر سکتا جس سے ملک کا دفاع کمزور ہو اور بیرون ملک ایسا پیغام جائے کہ خدا نخواستہ ملک میں خانہ جنگی برپا ہو گئی ہے اور عوام اپنی ہی افواج کے خلاف جنگ میں آ گئے ہیں۔ چونکہ ہم ایک ایٹمی قوت بھی ہیں تو پھر پوری عالمی برادری خاص طور بڑی عالمی طاقتوں میں عدم تحفظ کا احساس اجاگر ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ ہتھیار کسی منظم یا غیر منظم ، غیرسرکاری  عسکری قوت کے ہاتھ لگ گئے تو پھر امن عالم بری طرح سے متاثر ہو سکتا ہے جس کے ردعمل کے طور پر یہ قوتیں ملک پر حملہ آور ہو کر اپنے مقاصد پورے کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ہماری افواج کے بارے میں پوری دنیا کو یقین ہے کہ یہ پروفیشنل آرمی ہے یہ ملک کا اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بخوبی دفاع کر سکتی ہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ مہم جوئی نہیں کی کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں وگرنہ یہ کسی کمزور ملک میں ہوا ہوتا تو کوئی اور حملہ آور ہوتا یا نہیں روایتی دشمن اپنا کام ضرور دکھا جاتا (پاکستان کے خلاف یہ سازشیں بھی اسی لئے ہوتی ہیں کہ یہ دشمن ہم سے جنگ کے ذریعے نہیں جیت سکتے) ۔

 

ملکی  سلامتی کے خلاف سازشیں پہلے بھی ہوئیں لیکن ان سے خاص مقاصد کیلئے چشم پوشی کی گئی۔ انہیں انعام و اکرام سے نوازا گیا۔ لوگوں کے خلاف سازشیں کر کے اپنے ہم نواؤں کو اقتدار میں لایا گیا۔ 2014 میں ہوئے واقعات جیسے پارلیمنٹ پر حملہ، پی ٹی وی پر حملہ، سیکیورٹی اداروں کے افسران اور اہلکاروں پر حملوں کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اور نہ جگ ہنسائی ہوتی۔ اس سازش (حالانکہ یہ سازش سے زیادہ بغاوت ہے اگر ان سب واقعات کی کڑی ملا کر دیکھی جائے) میں ملوث تمام کرداروں خواہ ان کا سٹیٹس کچھ بھی ہے کو قانون کے دائرہ اختیار میں لا کر کڑی سے کڑی سزا دلوائی جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی ملک دشمن، طالع آزما یا سیاسی ابن الوقت ملک و قوم کے مستقبل سے نہ کھیل سکے۔

 

گذشتہ روز کی کورکمانڈرز کانفرنس اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاسوں کے بعد جاری ہونے والے اعلامیوں کے مطابق مسلح افواج اور حکومت نے ان شرپسندوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ بہت ہی خوش آئند ہ بات ہے۔  ان اعلامیوں کے بعد پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمود مولوی نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی چھوڑنے اور اپنی نشست سے استعفیٰ کا اعلان کیا اور واضح اعلان کیا کہ وہ اپنی مسلح افواج کے خلاف ہرگز نہیں جا سکتے وہ عمران خان کے اس عمل میں ان کے ساتھ ہرگز نہیں ہیں۔ علی زیدی کے بارے میں بھی بڑے وثوق کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی اب عمران خان سے دوری اختیار کر چکے ہیں اسی لئے انہیں ہاؤس اریسٹ کیا گیا ہے ۔ یہ ٹوٹ پھوٹ کا عمل اب تیزی سے آگے بڑھے گا اور آئندہ چند روز میں مزید رہنما بھی ایسی پریس کانفرنسیں کرتے نظر آئیں گے۔

 

میں نے کچھ روز قبل عمران خان کے بارے میں ایک آرٹیکل  " الطاف حسین ثانی، بقا کی فیصلہ کن لڑائی " کے عنوان سے لکھا تھا کہ وہ الطاف حسین ثانی ہیں۔ جو دوست الطاف حسین کے بارے میں زیادہ نہیں جانے اس آرٹیکل میں میں نے الطاف حسین کے بارے میں بھی چیدہ چیدہ باتیں تحریر کی ہیں تاکہ آپ انہیں بھی جان سکیں۔ عبدالستار ایدھی کو عمران خان اور جنرل حمید گل نے کیوں دھمکایا تھا کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔یہ سب پڑھنے کیلئے اوپر کے لنک پر کلک کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے