عمران خان کا قوم سے خطاب۔۔۔ تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

عمران خان کا قوم سے خطاب۔۔۔  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

عمران خان کا قوم سے خطاب۔۔۔

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی

 

آئے روز ہم سنتے اور پڑھتے ہیں کہ فلاں وقت عمران خان کا قوم سے خطاب کا اعلان کیا گیاہے۔ ایسا ہرروز یا ہر دوسرے روز ہوتا ہے۔  عمران خان  کا قوم سے یہ خطاب تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اب تو لوگ عمران خان کے خطاب سے قبل ہی بتا دیتے ہیں کہ ان کے خطاب میں کیا ہو گا۔

 

اب آتے ہیں کہ قوم سے خطاب کون کرتا ہے؟ ویسے تو قوم سے خطاب کوئی بھی کر سکتا ہے اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں لیکن یہ ایک  علامتی عنوان ہے جس کے مطابق قومی رہنما جو مسند اقتدار پر براجمان ہو وہ قوم سے خطاب کرتا ہے  جو واقعی تمام قوم کو یا ملک کے تمام شہریوں کو ایک قوم سمجھتا ہے، اپنے خطاب،  رویے اور عمل سے تمام شہریوں کو ایک قوم بناتا ہے۔ اس لئے یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا رہنما جو اپنا مؤقف بیان کرتا ہے، دوسری جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں پر طعن و تشنیع کے ہتھوڑے برساتا ہے، محبتیں بانٹنے کی بجائے نفرتوں کو پھیلاتا ہے تو وہ کیسے قوم سے خطاب کرنے کا ٹائیٹل استعمال کرنے کا حقدار ہے۔ عمران خان نے تو ایسا اپنے دور اقتدار میں بھی نہیں کیا تھاچہ جائیکہ وہ اس وقت ایک پارٹی کے سربراہ اور رہنما ہیں وہ ہر صورت اپنا ہی بیانیہ بگھارتے ہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ نفرت کا بیانیہ پھیلا کر ملک وقوم میں تقسیم اور بددلی پیدا کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔خواہ وہ اپوزیشن میں تھے، اقتدار میں رہے یا اب مزاحمتی سیاست میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں تو ان کا یہ مؤقف کیسے ایک قومی شناخت کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس لئے اگر وہ یہ کہیں کہ وہ اپنے کارکنان سے خطاب کریں گے تو زیادہ بہتر ہو گا۔  9 مئی کے واقعات کے بعد تو اب یہ اور بھی واضح ہو گیا ہے کہ ان کا ایجنڈا قومی ہے ہی نہیں وہ صرف قومی ٹچ دینے کیلئے ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جیسے وہ اسلامی ٹچ ، حب الوطنی ٹچ اور صادق و امین ٹچ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔

 

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ "عمران خان کا قوم سے خطاب "قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے بیانات سے مکرنے اور یوٹرن لینے سے ذرا سا بھی وقت نہیں لیتے اور نہ ہی ہچکچاتے ہیں کیونکہ ایک تو وہ کرکٹ کے دنوں ہی سے نوجوانوں  میں بہت مقبول رہے ہیں دوسرے ان کے امیج بلڈنگ میں بڑے بڑے اداروں نے بھرپور کردار اور پیسہ خرچ کیا ہے۔ جس کے باعث وہ نوجوان اور جذباتی مردوخواتین کو آسانی سے ٹریپ کر لیتے ہیں۔ تمام تر یوٹرنز کے باوجود ان کے کارکنان واہ واہ کے ڈونگرے برساتے نہیں تھکتے۔ مثال کے طور پر ان کی ٹانگ کا ہی قصہ لے لیں کہ کس طرح وہ سیاسی مفاد ، ہمدردیاں اور قانون سے بچاؤ کیلئے اپنے کارکنان کو بے وقوف بنا کر 8 ماہ تک ٹانگ پر پلستر چڑھا کر ویل چیئر پر بیٹھے رہے اور پھر گرفتاری پر کس طرح بھاگتے دوڑتے نظر آئے ۔ اس ہی کو لے لیں تو کوئی بھی ذی شعور انسان اس دو نمبری پر ایک لیڈر کو معاف نہیں کر سکتا لیکن پی ٹی آئی کارکنان اس پر بھی زندہ باد زندہ باد کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں۔  لیکن انقلابی ایسے ہیں کہ تھوڑی سی مشکلات آنے پر پارٹی کیا سیاست چھوڑنے پر بھی راضی ہو گئے ہیں۔  قصہ مختصر قوم سے خطاب قومی لیڈر کو ہی زیب دیتا ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

الطاف حسین ثانی، بقا کی فیصلہ کن لڑائی

ریاست مخالف فساداتمیں نابالغ بچوں کی شمولیت ، ذمہ دار کون؟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے