انشائیہ کا مفہوم اور اس کی خصوصیات

انشائیہ کا مفہوم اور اس کی خصوصیات  تحریر: تبسم آراء (ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی)     انشائیہ کا تعارف

 

انشائیہ کا مفہوم اور اس کی خصوصیات

تحریر: تبسم آراء (ریسرچ اسکالر عثمانیہ یونیورسٹی)

 

انشائیہ کا تعارف

 انشائیہ کا تعارف انشاء سے نکلا ہے۔ جس کے لغوی معنی ہے پیدا کرنا۔ انشاء پردازی کا مطلب دل سے بات پیدا کرنا‘۔ عبارت لکھنا۔ طرز تحریر لکھنے کی مہارت۔ انشاء کرنا تعلیم یافتہ طبقہ کی زبان۔

(بحوالہ فیروز اللغات )

 

 قرآن مجید میں لفظ انشاء کے معنی ہے پیدا کرنا جو کئی جگہ وارد ہوا ہے۔ سورۃ الملک ارشاد باری تعالیٰ ہے " کیوں کہ وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ عبد الماجد دریا بادی کے نزدیک انشائیوں کی امتیازی خصوصیت حسن انشاء ہے۔ یہ نام ہی سے ظاہرے کہ انشاء میں مغز مضمون کی اصل توجہ حسن عبادت پر ہے۔

 

نثری ادب میں انشائیہ ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ اردو ادب میں انشائیہ ایک ایسی تحریر کا نام ہے جو ذہنی ( ایج) خیالات کو گرفت میں لاتی ہے۔ انشائیہ کو انگریزی میں (Personal Essay) کہتے ہیں۔ انشائیہ لفظ عربی سے اردو میں ۔ ذہن کی آزاد زرنگ انشائیہ کی خصوصیت ۔ کسی بھی موضوع کے بارے میں ذہن میں جو خیالات آتے ہیں ان کو لطیف اور خوشگوار انداز میں بیان کرنا انشائیہ کے مفہوم میں آتا ہے۔

 

انشائیہ میں کسی بھی موضوع کے بارے میں انشائیہ نگار کے تاثرات احساسات کیفیات انشائیہ میں لازمی طور پر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر سمویل جانس Samual Jonson نے اسے A Loosesallyof mind قرار دیا  یہ انسانی دماغ کی ڈھیلی اور بے پرواہ قسم کی اڑان ہے )۔

(آئینہ  اردو)

 

ستر ہواں باب صفحہ نمبر ۵۳۵ میں وزیر آغا انشائیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انشائیہ کا خالق اس مختص کی طرح ہے جو دفتر کی چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے۔ چست دتنگ کپڑے اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ مونڈھے پر نیم دراز ہو کر حقے کی لے ہاتھ میں لئے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے دوست و احباب سے محو گفتگو ہو جاتا ہے۔ اس صنف انشائیہ میں مصنف کسی موضوع سے متاثر ہوتا ہے تو وہ اپنے تاثرات کو آسان اور لطیف انداز میں پیش کرتا ہے۔ انشائیہ میں اگر بو جھل پن پیدا ہو جائے تو وہ انشائیہ نہیں رہتا۔ ایف ایچ رچرڈ نے ایک کتاب Great Essay of all Nation کے عنوان سے مرتب کی ہے اس میں وہ Essay کی خصوصیات پر زور دیتا ہے ۔ Essay کا انداز سادہ ہو دوسرے یہ کہ وہ غیر مصنوعی ہو ۔ انشائیہ میں بے اتکلف انداز بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اور بے تکلف انداز اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اس میں مصنوعی پن کا

 

شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہوسٹن ما سکرین (Great Essays (Hoston Mailarion کے نام سے جو کتاب مرتب کی ہے اس میں حسب ذیل تعریف ملتی ہے کہ انشائیہ ایک نثری تحریر ہے جس میں کسی بھی موضوع پر بحث کی جاسکتی ہے اس میں حکیمانہ فکر تو ہوسکتی ہے لیکن سنجیدگی سے نہیں ۔ اس میں فلسفہ تو ہو گا لیکن فلسفیانہ با قاعدگی نہیں ۔ اس میں ایک غیر مربوط وحدت ہوتی ہے۔

 

ماہرین کے درمیان انشائیہ کے تعلق سے کافی بحثیں ہو چکی ہیں ۔ کبھی ماہرین اردو نے انشائیہ کو بے تکلفانہ اور غیر ری انداز قرار دیا ہے تو کسی نے مزاح کی مکمل حمایت کی تو کسی نے مخالفت کی ۔ اور بعض نے جلکی پھلکی شگفتگی پر زور دیا۔ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ انشائیہ نگاری ، مزاح نگاری نہیں ہے لیکن اردو کے مزاح نگاروں کی اکثریت نے ایسے مضامین لکھتے ہیں جن میں انشائیوں کی خصوصیات ملتی ہیں ۔ ڈاکٹرمحمد حسنین کہتے ہیں ہیکہ مزاح کو ذاتی طور پر میں انشائیہ کا جو ہر ہی نہیں جو ہر اعظم قرار دیتا ہوں ۔ یہ انشائیہ نگاری کی سیرت کا سرشت کا نمبر ہے اور یہی اس کے فن کا جلوہ صدر جنگ ہے۔

صنف انشائیہ اور انشافن: 25

 

انشائیہ کی خصوصیات:

 

 کتاب انشائیہ شناسی میں ڈاکٹر انور سدید کے مطابق انشائیہ داخلی صنف ہے۔ انشائیہ میں مصنف کی ذات کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے اس لئے اس صنف میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ انشائیہ نگار نے موضوع کو کس حد تک اپنی ذات میں ضم کیا ہے۔ اس صنف میں ادیب کا شخصی تجربہ کا عکس ضرور ہوتا ہے اس لئے انشائیہ اور انشائیہ نگار کے درمیان جو رشتہ موجود ہے وہ کاروباری نوعیت کا نہیں بلکہ باپ اور بیٹے کے رشتے کے مماثل ہوتا ہے اور اس کا قاری دوست ہے جو باپ کی محفل میں شریک ہوتا ہے تو بیٹے پر بھی محبت کی نظر 5-"201ص 42) رشید امجد نے لکھا ہے کہ انشائیہ کی ساری بحث کی نفاست و شرافت کی بحث ہے ۔ اچھے انشائیہ کے لئے بڑی شخصیت یا یوں کہ لیجئے کہ شخصیت کی نفاست اور شرافت کا ایک خاص معیار ہونا ضروری ہے ورنہ موضوع جو بھی ہو اسلوب جیسا ہو۔ انشائیہ فلسفیانہ عظمت روحانی شگفتگی اور مسرت پیدا نہ ہو سکے گی ۔ ایک ضروری شخصیت انشا دیکھی نہیں سکتا۔ ( رشید امجد خود انشائیہ کے بارے میں اردوزبان نومبر دسمبر ) انشائیہ کے اسلوب شخصیت کا عکس ہوتا ہے اور یہ اپنا جلوہ ہر تحریر میں دکھاتا ہے تاہم انشائیہ کی اہمیت دوسری اصناف سے نسبت زیادہ موضوع کوئی بھی ہو جب تک اسے اسلوب کی تازگی، شگفتگی اور صحت مند انداز میں سہارا نہیں دیتی قاری اس کی طرف محبت سے دیکھنا گوارانہیں کرتا۔ ایک ایل لوکس نے لکھا ہے کہ اسلوب و طریقہ کا ر ہے جس سے فنکار دوسروں کو متاثر کرتا ہے“ اسلوب کا مسئلہ در اصل شخصیت کا مسئلہ ہے"۔

 

ایک ایل لوکس بحوالہ سید عابد علی عابد اسلوب اس 58 مجلس ترقی ادب لاہور 1971ء) جے پی پر سٹلے نے لکھا ہے کہ انشائیہ نگار کی کامیابی اس کے انداز اور اسلوب کی مرہون منت ہے“۔ ڈاکٹر وزیر آغا (دوسرا کنارہ پس ۸) میں لکھتے ہیں کہ انشائیہ نگار لکھے ہوئے لفظ سے بولے الفاظ کا کام لیتا ہے اور ہر قدم پر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ۔ وہ جب ایک کیفیت سے دوسری کیفیت کی طرف پیش قدمی کرتا اور حقیقت سے واقف کراتا ہے تو اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ آنکھوں کی چمک اور دل میں پیدا ہونے والے جذباتی خیالات سب لفظوں کے پیکر میں سما جاتی ہے اور ہم ایک ناظر کی حیثیت سے نہ صرف ان سب کیفیات کا مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ اس میں تصور بھی کرتے ہیں۔

 

ڈاکٹرمحمد حسنین نے لکھا ہے کہ ( تحریریں ) انشاء نہ ہو تو تحریر لکیر بن جاتی ہے اور عبارت مجہول النسب ہو جاتی ہے۔ انشائیہ اور انشاء میں دہی تعلق ہے جو کر ہ ارض اور آفتاب میں ہے۔ یعنی اس کی شعاعیں روشنی دیتی ہیں اور حرارت بھی"۔

(ڈاکٹر سید محمد حسنین 'صنف انشائیہ اور انشائیے ۔ ص: ۲۷) سید احتشام حسین کہتے ہیں ایسے (انشا سے ) کو ایک ایسی فلسفیانہ شگفتگی کا حامل ہونا چاہئے جو پڑھنے والے کے ذہن پر منطق اور استدلال کے ذریعہ نہیں بلکہ محض خوشگوار استعجاب اور بے ترتیب مفکرانہ انداز بیان کے ذریعہ اپنا تاثر قائم کرنے"۔

 سید احتشام حسین اردو انشائی، از صفی مرتضی پیش لفظ مس : ۷ ) انشائیہ کے فن کی طرح اسلوب کا معاملہ بھی حد درجہ نازک ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ انشائیہ کے اسلوب میں جو کچک ملتی ہے اس کی بنا پر دیگر اصناف کے اسلوب سے بھی بقدر ظرف استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن سلیقہ اور احتیاط کے ساتھ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذراسی بے احتیاطی یا فنی چوک کے نتیجہ میں انشائیہ کا اسلوب اس سے محروم ہو جائے گا جو اس کا جو ہر سمجھا جاتا ہے اور جس کے بغیر انشائے محض ایک نثر بن جاتا ہے۔

 

غرض انشائیہ ان دونوں خصوصیات سے بھر پور استفادہ کر کے حقائق کافتی اظہار کرتا ہے ۔ اسی سے مماثل عنصر فلسفیانہ فکر اور منطق بھی ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ انشائیہ کافن پیچیدہ و نازک ہونے کے علاوہ فطری سادگی اور پر کاری کا مظہر ہے۔ انشائیہ نگار اپنے دامن میں لا محمد ودفن اور ہنر چھپارکھا ہے۔

 

بحوالہ ( انشائیہ کی روایت مشرق و مغرب میں ، از محمد اسعد اللہ )

 

یہ بھی پڑھیں:  خانہ کعبہ تاریخ کے آئینے میں 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے