ریاض قیصرانی اغوا کیس کی حقیقت ہر کوئی جاننے کو بے تاب
ریاض
قیصرانی اغوا کیس کی حقیقت کیا ہے ہر کوئی
جاننے کو بے تاب نظر آتا ہے۔ ریاض قیصرانی کے دن دیہاڑے اغوا سے علاقے میں تشویش
کی لہر دوڑ گئی ہے۔
ریاض
قیصرانی کے اغوا کیس کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر ہو کوئی اپنی کہانی بیان کر رہا
ہے۔ قیصرانی چیف سردار میر بادشاہ قیصرانی نے اس اغوا کی پر زور مذمت کی ہے اور بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ انہوں نے اعلیٰ حکام سے رابطے کا دعویٰ بھی کیا
ہے۔ سردار میر بادشاہ قیصرانی نے مغوی ریاض قیصرانی کے جلد از جلد بازیاب ہونے کی امید بھی ظاہر کی
ہے۔
اسی
طرح سابق ایم پی اے سردار ممتاز بھٹو خان قیصرانی، حافظ طاہر قیصرانی،احمد افتخار قیصرانی نے بھی
ریاض قیصرانی کے اغوا کی مذمت کی ہے اور مغوی کی بازیابی کیلئے اپنے تعلقات
استعمال کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ اس میں احمد افتخار قیصرانی نے رینجرز حکام سے
رابطے کے بارے میں بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ رینجرز کے اعلیٰ حکام سے رابطے میں ہیں
وہ مغوی ریاض قیصرانی کو جلد از جلد بازیاب کرا لیں گے۔
سوشل
میڈیا پر ریاض قیصرانی کے اغوا کے بارے میں طرح طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں کہ ریاض
قیصرانی کو وہوا سے تونسہ جاتے ہوئے اغوا کیا گیا۔ کوئی جھوک بودو کے نزدیک سے
اغوا ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور کوئی ٹبی قیصرانی اور ریتڑہ کے درمیان سے اغوا
کا دعویٰ کر رہاہے۔ اس سب کے دعوے اپنی جگہ لیکن ہم آپ کو ان دعوؤں کی حقیقت بتانے
کی کوشش کریں گے۔
ریاض
قیصرانی کا تعلق تمن قیصرانی کے موضع چھکے زم سے
ہے۔ اس وقت کشمور کے نزدیک سندھ کے
کچے کے علاقے میں اغواکاروں کے چنگل میں ہے۔ ریاض قیصرانی کو اغوا ہوئے
تقریباََ سات روز ہو گئے ہیں۔ ان
کےعزیزواقارب کے بقول ابتداء میں تین چار روز ریاض قیصرانی کا موبائل بند رہا۔
اہلخانہ اسے ڈھونڈنےکیلئے سرگرداں رہے۔ پھر اس کا موبائل آن ہوا ، اغواکاروں
نے اس سے بات کروائی جس پر اس نے گھر والوں کو بتایا کہ اسے ٹبی اور ریتڑہ کے
درمیان سے اغوا کیا گیا ہے اسے بچا لیں اور اغواکاروں کو تاوان دے دیں۔ جس کے بعد
اغواکاروں نے 50 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کر دیا۔
مبینہ
طور پر جب پولیس حکام نے اس کال کی لوکیشن چیک کی تو وہ کشمور کے نزدیک سندھ کے
کچے کے علاقے کی موصول ہو رہی تھی۔ یہ باعث تشویش اور الارمنگ حقیقت تھی کہ ایک
نوجوان کو ٹبی قیصرانی یا ریتڑہ کےنزدیک سے اغوا کیا گیا اور پھر اسے 400 کلومیٹر
سے زائد فاصلہ طے کر کے سندھ کے کچے کے علاقے میں لے جایا گیا۔ درمیان میں بیسیوں
چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اغوا کار سیکیورٹی اہلکاروں
کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے اپنے محفوظ ٹھکانے پر لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔
اب یہاں یہ سوال بھی سر اٹھانے لگا کہ کیا اب تونسہ شریف بھی سندھ کے ڈاکوؤں کے نرغے
میں آ چکا ہے اور یہاں سے بھی جسے چاہیں اغوا کر کے اسے محفوظ طریقے سے اپنی کمین
گاہوں میں لے جا سکتے ہیں اور پھر ان کے اہلخانہ سے تاوان طلب کر سکتے ہیں۔ اہل علاقہ یہ سوچ سوچ کر اپنے آپ کو بھی
غیرمحفوظ جان رہے ہیں۔
اب
اگر ریاض قیصرانی کے اس دعوے کو کہ اغوا کار اسے ٹبی قیصرانی اور ریتڑہ کے درمیان
سے اغوا کر کے یہاں لائے ہیں تو ہماری دانست میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ وہ
کسی ذاتی سواری پر سفر نہیں کر رہے تھے بلکہ کسی مسافر وین پر سفر کر رہے تھے۔ اگر
اغواکار اسے کسی مسافر بس یا وین سے اغوا کرتی تو سوشل میڈیا کے اس دور میں یہ خبر
تین چار روز چھپی نہیں رہ سکتی تھی ، فوری طور پر وہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل
جاتی اور پھر اغواکار ضلع ڈیرہ غازیخان کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے تھے اور نہ
ہی ریاض قیصرانی کے اہلخانہ اسے گمشدہ خیال کر کے اسے تمام جاننے والوں کے ہاں
ڈھونڈتے پھرتے۔ لہذا اس کا یہ دعویٰ صرف والدین اور جاننے والوں کی آنکھوں میں
دھول جھونکنے سے زیادہ اہمیت نہیں لگتا کہ وہ اپنی جائے اغوا چھپانا چاہتے ہیں ۔
میرا
یہ خدشہ آج سچ ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ
آج معلوم ہوا ہے کہ مبینہ طور پر نوجوان
ریاض قیصرانی کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو کر خود کشمور جا پہنچا اور پھر خود ہی
ان اغواکاروں کے چنگل میں پھنس گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نکالی
گئی ریاض قیصرانی کے موبائل کی کال ہسٹری
سے بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ کسی لڑکی سے رابطے میں تھے جس نے اسے ٹریپ کر کے کشمور
کے کچے کے علاقے میں ملنے کیلئے بلایا اور عاشق موصوف کو اپنے کاروباری پارٹنرز کے
حوالے کر دیا۔
سوشل
میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر آئے روز ایسی خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ
کچے کے ڈاکو لوگوں کے مختلف طریقوں سے دھوکہ دے کر پہلے کشمور اور پھر کچھ کے
علاقے میں بلا کر اغوا کر لیتے ہیں اور پھر ان کے گھر والوں سے بھاری تاوان وصول
کرکے چھوڑتے ہیں۔ ان میں سے یہ ہنی ٹریپ کا یہ دھوکہ سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہو
رہا ہے۔ نوجوان عشق میں اندھے یا اپنے
مذموم مقاصد کیلئے ان کے ٹریپ میں آ جاتے ہیں اور پھر دولت لٹا کر ہی گلو خلاصی
ہوتی۔ سوشل میڈیا پر اس بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر یہ عقل کے اندھے پھر
بھی ان کے چنگل میں پھنستے ہیں اور خود اور گھر والوں کیلئے مسائل خرید لیتے ہیں۔
کچے
کا یہ علاقہ چونکہ سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر واقع ہے اور ان ڈاکوؤں کو وہاں کے
بااثر سرداروں اوروڈیروں کی حمایت بھی حاصل ہے اس لئے وہ پولیس کی پکڑ سے محفوظ
ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کاروبار وہاں کے سرداروں اور وڈیروں کا ہی ہے اور
انہوں نے اس کام کیلئے کچھ بدمعاش رکھے ہوئے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ لیکن جب قانون
نافذ کرنے والے ادارے ان ڈاکوؤں کے خلاف کارووائی کیلئے پلان کرتے ہیں تا بظاہر ان
کے ساتھ مل کر ان کے خلاف کارووائی کا حصہ ہوتے ہیں لیکن درپردہ وہ ان کے پلان سے
آگاہی حاصل کر کے اپنے کاروباری پارٹنرز کو آگاہ کر رہے ہوتے ہیں انہیں بچا رہے
ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کے خلاف پہلے تو کوئی کارووائی نہیں کرتا اگر کوئی
راضی ہو بھی جائے تو چند دن کی مصروفیت کے بعد بلا نتیجہ یہ کارووائی ختم کر دی
جاتی ہے۔ کچھ دن بعد ہی یہ ڈاکو منظرعام پر آ کر دوبارہ اپنی کارووائی شروع کر
دیتے ہیں۔
آخری نتیجہ
ریاض
قیصرانی کیس اور دیگر واقعات سے نتیجہ نکلتا کہ نوجوانوں کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی
ٹریپ میں پھنس کر ان ڈاکوؤں کا لقمہ نہ بنیں ۔ نہ اپنے لئے اور نہ اپنے گھر والوں
کیلئے مسائل کا باعث بنیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ظالمو!
قاضی آ گیا ہے ـ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھا لیا
کچھ تو ہمارا بھی لگتا ہے خدا آخر – تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے