ظالمو!
قاضی آ گیا ہے ـ چیف
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھا لیا
"
ظالمو ! قاضی آ رہا ہے" جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کے وقت
جماعت اسلامی کے دوست الیکشن سلوگن کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس وقت یہ نعرہ
بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے " ظالمو! قاضی آ رہا ہے "کے نعرے
کو مختلف حالات میں بطور طنزومزاح اور دیگر مواقع کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
اب یہ نعرہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کیلئے پھر استعمال ہونا شروع ہو گیا
ہے۔ تاہم اب یہ نعرہ تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ " ظالمو! قاضی آ گیا ہے"
لہذا خبردار ہو جاؤ، اب کسی کی خیر نہیں۔
جسٹس
قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف ایوان صدر میں عبوری صدر ڈاکٹر
عارف علوی نے لیا۔ حلف بردار کی تقریب میں
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ، نگران وفاقی کابینہ کے ارکان، سپریم کورٹ اور ہائی
کورٹس کے ججز، چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم
منیر، مسلح افواج کےاہم عہدیداران ، سول بیوروکریسی کے اہم عہدیداران نے شرکت کی۔
جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کے پیشرو عمر عطا بندیال 19 مال تک چیف جسٹس رہے۔ عمرعطا بندیال کا دور کافی حد تک متنازعہ رہا۔ ان پر جانبداری اور ایک سیاسی جماعت کی سہولتکاری کا الزام بھی لگتا رہا۔ ان پر تمام اختیارات اپنے تک محدود رکھنے اور ون مین شو کا الزام بھی لگا۔ اقرباء پروری اور ساتھی من پسند ججز کو تحفظ دینے اور بنچز کی تشکیل میں ذاتی پسند و ناپسند کا الزام بھی عائد ہوا۔ حتیٰ کہ سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں نے نام لیکر ان پر اپنے شکوک کا اظہار کیا مگر وہ اپنی روش پر قائم رہے اور عدالت عالیہ کو اپنی پسند و ناپسند کے مطابق چلاتے رہے۔ آج ان کی ڈکٹیٹرشپ کا سورج ڈوب چکا ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ اپنی اصول پسندی اور انصاف کیلئے
عام عوام میں بہت اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنے کیلئے وہ بہت
سے مسائل اور مقتدر حلقوں کی کڑی مخالفت سے گزرے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ ان کا چیف
جسٹس بن جانا ایک معجزے سے کم نہیں۔ ہم آپ
کو بتاتے چلیں کہ 2012 میں پیپلز پارٹی کی حکومت اس وقت ان سے ناراض ہو گئی جب
انہوں نے میموگیٹ سے متعلق فیصلہ لکھا۔ اسی طرح جب کوئٹہ بم دھماکے کی رپورٹ لکھی
تو مسلم لیگ نواز کی حکومت سیخ پا ہو گئی۔
اسی طرح فیض آباد دھرنا کیس تو سب کو یاد ہوگا ۔ فیض آباد دھرنا کیس کے
تاریخ ساز فیصلے کے بعد تو طاقتور ایسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی حکومت بھی نہ صرف
ناراض ہوئے بلکہ انہیں سبق سکھانے کیلئے میدان میں اتر آئے۔ ان کے خلاف آمدن سے
زائد اثاثہ جات کے الزامات لکا کر سپریم
جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی کرنی یہ ہوئی کہ جنہوں
نے ان پر یہ الزامات لگائے اور انہیں سبق سکھانا چاہتے تھے بعدازاں انہوں نے اس پر
ندامت کا اظہار کیا حتیٰ کہ جس صدر کے دستخطوں سے ان پر ریفرنس دائر کیا تھا اسی
صدر عارف علوی نے ان سے چیف جسٹس کا حلف لیا ہے۔
قاضی
فائز عیسی اس وقت چیف جسٹس بنے ہیں جب پاکستانی عدلیہ کی عالمی ریٹنگ انتہائی
گراوٹ کا شکار ہے اور آخری نمبروں پر پہنچی ہوئی ہے۔ پاکستانی نظام انصاف عالمی
درجہ بندی میں 129 ویں نمبر پر ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 60 ہزار کے قریب کیسز
زیرالتوا ہیں۔ عام سائل کو صرف دکھے اور پیشیاں جبکہ خواص کو "ویلکم "اور " گڈ ٹو سی یو "
کہا جاتا ہے اور ان کے کیسز کو پر لگا کر
دنوں میں فیصلے کئے جاتے ہیں حتیٰ کہ کچھ خواص کو نوازنے کیلئے آئین کو " ری رائٹ "کرنے تک سے بھی
گریز نہیں کیا گیا۔ کچھ خواص کی سہولتکاری کیلئے پارلیمنٹ کے پاس کئے گئے بلز کو
بیک جنبش قلم اڑا دیا گیا بلکہ کچھ قوانین کو تو قانون پاکستان کا حصہ بننے سے
پہلے ہی حکم امتناعی جاری کر کے تہس نہس کر دیا گیا۔ اسی طرح بعض کیسز کے فیصلے
محفوظ کر کے رکھے گئے اور مہینوں سالوں تک نہ سنائے گئے اور جب سمجھا گیا کہ مناسب
وقت ہے اور اس سے "ان کے خواص " کو فائدہ پہنچ سکتا ہے پھر ایکدم سے
جاری کر دیا گیا۔ پاکستان کی عدلیہ خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کی شہرت انتہائی گراوٹ
کا شکار ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگوں کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک مسیحا کے طور پر
دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ انصاف کے تقاضوں کو پورا
کرتے ہوئے اس عصبیت کو دور کریں گے اور کسی چھوٹے یا بڑے کی تفریق کئے بغیر تمام
سائلین کو وقت پر انصاف فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
چیف
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عدلیہ کے اندر سے بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ سابق
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے مقاصد کیلئے بنچ بنانے کی ترتیب ہمیشہ سے ہی اس
طرح سے رکھی کہ ججز میں تقسیم اور گروپ بندی کا تااثر پھیل گیا اور ان کے قریبی
ججز کو لائک مائنڈڈ ججز اور بندیال گروپ کے ججز کہا جانے لگا اور گزرتے وقت کے ساتھ
ساتھ یہ تااثر مزید گہرا ہوتا گیا۔ ان کے مقابل کوئی گروپ تھا یا نہیں لیکن بندیال
گروپ کے ججز کے باقاعدہ نام لیکر ان کی پہچان بتائی گئی ۔ جس کے جواب میں کوئی
تردید جاری نہیں کی گئی اور نہ ہی اپنے عمل کے ذریعے اس تااثر کو ختم کرنے کی کوشش
کی گئی۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف
جسٹس آف پاکستان بننے کے بعد یہ ضروری ہو چکا ہے کہ سابق چیف جسٹس کے دور میں کو
منفی تااثر عام عوام پھیلا اسے ختم کرنے ضرورت ہے۔ جو ججز میرٹ کے اصولوں کے برعکس
لائے گئے ان کے بارے میں بھی فیصلہ ہونا چاہئے ۔ اسی طرح جن ججز کے خلاف کرپشن کے
الزامات لگے ، ان کی آڈیوز وغیرہ سامنے آئیں اور کچھ کے خلاف ریفرنس بھی دائر ہوئے
ہیں ان کے خلاف بھی جلد از جلد کارووائی ہونا ضروری ہے تا کہ عوام میں عدلیہ کرپشن
کا جو تااثر موجود ہے اسے ختم کرنا ضروری ہے تاکہ عوام میں عدلیہ کی توقیر کو بحال
کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:
کچھ
تو ہمارا بھی لگتا ہے خدا آخر – تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
0 تبصرے