رانی پور فاطمہ قتل کیس – صوبائی وزیر نے تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا

رانی پور فاطمہ قتل کیس – صوبائی وزیر نے تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا

رانی پور فاطمہ قتل کیس – صوبائی وزیر نے تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا

 

رانی پور میں 10 سالہ معصوم بچی فاطمہ قتل کیس کی تفتیش پر نگران صوبائی وزیر نے عدم اطمینان  کا اظہار کر دیا ہے۔ نگران صوبائی وزیر قانون سندھ عمر سومرو نے رانی پور فاطمہ قتل کیس میں پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس سے اب تک ملزم کا موبائل فون ہی ان لاک نہیں ہو سکا اور نہ ہی بار بار کے دعوؤں کے باوجود ملزم اسد شاہ کی اہلیہ حنا شاہ اور فیاض شاہ کو گرفتار کر سکی ہے۔  عمر سومرو نے میڈیا نمائندگان کو بتایا کہ پولیس تفتیش میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور نہ پولیس کوئی تسلی بخش جواب فراہم کر رہی ہے۔

 

آپ کی یاد دہانی کیلئے بتاتے چلیں کہ 14 رپورٹس کے مطابق  اگست کو رانی پور کے بڑے پیر اور سیاسی گھرانے میں 10 سالہ معصوم ملازمہ نے جسمانی اور جنسی تشدد کے باعث تڑپ تڑپ کر جان دے دی تھی۔  ابتداء میں ان بااثر شخصیات نے جرم کو چھپانے کی کوشش کی اور سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ملی بھگت اور بچی کے گھر والوں کو غلط معلومات دے کر اور دباؤ میں لاکر بچی کوکسی پولیس رپورٹ اور پوسٹ مارٹم کے بغیر دفنا دیا ۔ لیکن بعد ازاں تکلیف دہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اور سوشل میڈیا پر دباؤ بڑھنے پر پولیس نے ملزم اسد شاہ کو گرفتار کر لیا تھا۔

 

فاطمہ قتل کیس کے بارے میں ملنے والی تفصیلات کے مطابق 14 اگست کو قتل کی ہولناک واردات ہوئی اور یہ واقعہ 15 اگست کو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ جس پر رانی پور پولیس نے 16 اگست کو ملزم پیر اسد شاہ اور ان کی اہلیہ حنا شاہ پر مقدمہ درج کر لیا۔

 

بعد ازاں قبر کشائی کے بعد ہونے والے پوسٹ مارٹم میں فاطمہ سے جسمانی اور جنسی تشدد کا ذکر کیا گیا۔  دوران تفتیش معلوم ہوا کہ پیر اسد شاہ کی حویلی میں مزید کمسن بچیاں بھی بطور خادمائیں موجود ہیں۔ جس پر پولیس نے خواتین پولیس کے ہمراہ 7 کمسن بچیاں اور 3 خواتین بازیاب کرا لیں۔ 

 

اسی دوران مقتولہ فاطمہ کی والدہ نے بتایا کہ انہیں حنا شاہ کی چچی خاموش رہنے کیلئے دباؤ ڈال رہی ہے اور سنگین نتائج کی دھکمیاں بھی دی ہیں۔ اسی طرح پیر فیاض شاہ بہت بااثر ہے وہ بھی اپنی طاقت استعمال کر کے مختلف ذرائع سے مدعی پر دباؤ اور ہراساں کرتا رہا ہے ۔ حتیٰ کہ کچے کے ڈاکو بھی پیر اسد شاہ اور پیر فیاض شاہ کی مدد کو آ پہنچے اور انہوں نے بھی مدعی کو پیغام بھجوائے کہ وہ سنگین نتائج کیلئے تیار رہیں۔ 

 

رانی پور میں معصوم فاطمہ کو قتل ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے مگر رانی پور  پولیس نے  ابھی تک ملزمان حنا شاہ اور فیاض شاہ کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی ابھی تک ملزم اسد شاہ کے موبائل فون کا لاک کھلوا سکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسد شاہ کے اس موبائل میں بہت سے شواہد موجود ہونے کا امکان ہے جس میں معصوم خادماؤں اور دیگر عوارتوں کے ساتھ جنسی اور جسمانی مظالم کی ویڈیوز بھی شامل ہیں۔  کیونکہ کچھ دن قبل اسد شاہ پر یہ الزام بھی سامنے آیا تھا کہ ان کا تعلق ڈارک ویب مافیا سے بھی ہے ۔ وہ معصوم بچیوں کے ساتھ اس طرح کی ویڈیوز بنا کر ڈارک ویب سائٹس کو فروخت کرتا ہے۔

 

واضح رہے کہ ملزم اسد شاہ کا تعلق پیر گھرانے کے ساتھ ساتھ سندھ کے اہم سیاسی گھرانے  سے بھی ہے۔ اس گھرانے کے ارکان صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ یہ گھرانہ بہت بااثر ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار بھی ان سے تھر تھر کانپتے ہیں اور ان سے ملنے اور سامنا کرنے کیلئے قطار بنائے موجود رہتے ہیں۔  یہی وجہ ہے سوشل ایکٹیوسٹ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسد شاہ فیملی کے خلاف تحقیقات شفاف انداز میں ہونے اور انہیں قرار واقعی سزا ملنے کے امکانات وقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے یہ کیس نکلے اور پھر ان بااثر شخصیات کو باعزت بری کروا کر پھر غریب اور کمزور عقیدہ لوگوں پر مسلط کر دیا جائے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

Mard ko dard nahi hota | مرد کو درد نہیں ہوتا

بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ظالمانہ یا منصفانہ...  تحریر: فاروق شہزاد ملکانی 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے