ریاست مخالف فسادات میں نابالغ بچوں کی شمولیت ، ذمہ دار کون؟
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
9
مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر پھوٹنے والے ریاست مخالف فسادات کی فوٹیج کو باریک
بینی سے دیکھا جائے تو ان شرپسندوں میں شامل بڑی تعداد نابالغ بچوں کی بھی ہے۔
بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ یہی نابالغ بچےاور نوجوان سب سے زیادہ جذباتی انداز میں
ان قومی اثاثوں پر حملہ آور ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ایسا کیوں ہے کہ یہ معصوم
نوجوان جو ابھی سیکھنے اور پڑھنے کے دور سے گزر رہے ہیں ان میں ریاستی اداروں کے
خلاف زہر کس نے بھرا ہے؟ اس کی وجہ تین اہم ذرائع یا عناصر ہو سکتے ہیں۔ ایک
والدین، دوسرے اساتذہ، تیسرے میڈیا (اس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے)۔
اب
اگر اس کا تجزیہ کریں تو ہم جان سکتے ہیں ان عناصر میں دو عناصر والدین اور میڈیا
اس جذباتیت کی وجہ ہو تو سکتے ہیں مگر اوسط لگائیں تو صرف چند فیصد تک ہی محدود
رہے گی۔جبکہ اساتذہ ایک ایسی وجہ ہو سکتے ہیں جو نابالغ اور کچے ذہن کے بچوں کو
اچھا خاصا متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ میرا نقطہء نظر ہے ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس سے
اتفاق نہ کریں لیکن میرے پاس اس نقطہ ء
نظر کو تقویت دینے کیلئے کچھ وجوہات بھی ہیں اور کچھ مثالیں بھی ہیں۔
پہلی
وجہ تو یہ ہے کہ بچے اساتذہ کے پاس سیکھنے ہی کی غرض سے جاتے ہیں اور بچوں کے ذہن میں
یہ بات ہم سب لوگ بٹھا دیتے ہیں کہ اساتذہ جو کچھ بچوں کو سکھاتے یا پڑھاتے ہیں وہ
درست ہوتا ہے اور دوسرے کچے ذہن کے ان بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر جو باتیں از راہ
تفنن ہے کہہ دی جائیں تو بھی وہ باتیں ان کے ذہنوں میں گھر کر لیتی ہیں۔ اس پر یہ
سونے پہ سہاگہ کا کام کرتی ہے جب ایک استاد ایک خاص سیاسی جماعت کا بیانیہ پروموٹ
کرنے کا بوجھ اپنے سر پر لاد لے اور بچوں کو مختلف اسباق پڑھاتے ہوئے مثالیں دے دے
کر کچھ سیاسی رہنماؤں کو چور ،لٹیرے ، غاصب اور برائی کی جڑ قرار دینا شروع کر دے اور کسی مہاتما کو فرشتہ صفت اور
اعلیٰ خلائی مخلوق کا درجہ دے کر پوجنے کا درس دینے لگے ۔ بچے اپنے استاد کو چونکہ
سچا اور اچھائی کا درس دینے والا سمجھتے ہیں اس لئے وہ ان کی کہی باتوں کو بھی سچ
جان کر اس پر کاربند بھی ہو جاتے ہیں ۔ بچے چونکہ تمام نتائج سے نابلد ہوتے ہیں اس
لئے وہ جس بات کو درست سمجھتے ہیں اس پر عمل کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے
تیار ہو جاتے ہیں اور جسے برائی سمجھتے ہیں اسے مٹانے کیلئے بھی کسی دریغ سے کام
نہیں لیتے۔
بچوں
کے اسی وصف کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مطلب پرست عناصر نے اساتذہ کو بھی اس
راستے پر لگا دیا ہے کہ وہ ان بچوں کو بھی ایک خاص سیاسی جماعت کا گرویدہ بنا دیں
۔اس کیلئے کچھ خاص اسکولز اور کالجز کے نجی برانڈز نے تو اس کیلئے خاص مہمات بھی
چلائیں ۔ بچوں کے ذہنوں میں ایک خاص بیانیہ کو سمویا گیا۔ یہ مہمات عمومی طور پر
پیڈ ہوتی ہیں جنہیں خاص عناصر سپانسر کرتے ہیں۔ ان مہمات کے نتیجے میں چین اداروں
کے سربراہان پیسہ بناتے ہیں، پیسہ خرچ کرنے والے بیانیہ بناتے ہیں ، بچے فیسیں دے
کر بھی یہ زہر اپنے دماغوں میں لئے پھرتے ہیں جبکہ اساتذہ صرف علم دینے کے معاوضے
کے طور پر تنخواہ لیتے ہیں اور بچوں میں یہ زہریلا پروپیگنڈا انجیکٹ کرتے ہیں۔ وہ
بغیر کسی معاوضے کے اپنی پیشہ وارانہ بد عہدی کے مرتکب ہوتے ہیں اور بچوں کے ذہنوں
کو علم سے منور کرنے کی بجائے کچھ اداروں
اور شخصیات کے خلاف زہریلالاوا انڈیلنے کا کام کرتے ہیں۔
یہ
زہریلا کام صرف برانڈڈ سکولوں یا پرائیویٹ تعلیمی اداروں یا صرف شہری علاقوں میں
ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ دھندہ عام اسکولوں اور تعلیمی اداروں اور دیہی علاقوں میں
بھی ہو رہا ہے۔ کچھ خاص ذہنی رحجان رکھنے والے اساتذہ بھی یہی کام خوش اسلوبی سے
کر رہے ہیں۔ اس بات کااندازہ ہم میں سے ہر شہری بخوبی لگاسکتا ہے جب وہ اپنے بچے
کے سامنے کوئی سیاسی ٹاپک چھیڑے تو اس بچے کے رحجانات بلکہ شدت جذبات کا اندازہ ہو
ہی جاتا ہے۔ پھر ہم خود ہی تجزیہ کر سکتے ہیں کہ یہ زہر بچے میں کہاں سے آیا
ہے۔
اس
کا تدارک کرنے کیلئے حکومتی ادارے اس جانب اپنی توجہ مبذول کریں اور مانیٹرنگ کو
یقینی بنائیں کہ کوئی استاد اپنے سیاسی خیالات کو بچوں میں نہ انڈیلنے پائے۔اس
کیلئے ضروری ہے کسی بھی استاد بلکہ کسی بھی سرکاری ملازم کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی
نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ بچے صرف کلاس میں ہی نہیں ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی
ان کے نظریات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ جو سرکاری ملازم خاص طور پر اساتذہ اس پابندی
کو نہ مانیں انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے تاکہ بہتر اساتذہ میسر آ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں:
الطاف
حسین ثانی، بقا کی فیصلہ کن لڑائی
بڑی
سازش ناکام ، پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز
0 تبصرے