اصغر ملکانی – وہ جو سراپا محبت و اخوت تھے
تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
سابق
بنک منیجر اصغر ملکانی جنہیں مرحوم لکھتے
ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے عجب آزاد مرد تھے۔ چھوٹے بڑے سبھی کے بیک وقت دوست ، بھائی اوربزرگ
بھی۔تمام جاننے والے دوست ، بزرگ اور رشتہ دار انہیں اصغر خان کہتے تھے مگر
وہ اپنے آپ کو صرف اصغر ملکانی کہلوانا پسند کرتے تھے اس لئے آج میں نے بھی ان کی
خواہش کے احترام میں انہیں اصغر ملکانی لکھنے کی گستاخی کر دی ہے۔ وہ اگرچہ میرے بزرگوں کے دوست تھے مگر میرا
ماننا ہے کہ وہ میرے بھی دوست تھے۔ پچھلے 22 سال ان سے بے انتہا محبت اور احترام
کا انمول رشتہ رہا ۔ ہمیشہ بے انتہا اپنائیت
اور خلوص سے نوازا کہ ان سے ملاقات
کے بعد دل واقعی باغ باغ ہو جاتا تھا۔
پچھلے
کچھ عرصہ سے وہ اور میں صحت کے مسائل سے گزر رہے تھے۔ اس لئے ملاقات کچھ کم ہو گئی
تھیں مگر وقفے وقفے سے کال کر کے صحت کے بارے پوچھتے حوصلہ افزائی کرتے اور زندگی
کو بہترین انداز سے جینے کا سبق دینا نہ بھولتے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ انہیں ہارٹ
اٹیک ہوا ہے اور وہ بڑی مشکل سے جانبر ہو پائے ہیں۔ ڈاکٹرز نے بھی مایوسی کا اظہار
کیا تھاکہ اس اٹیک سے ان کا دل کافی متاثر ہوا ہے ۔ انہوں نے انہیں صرف گھر میں
رہنے کا مشورہ دیا اور چلنے پھرنے سے بھی منع کر دیا ۔ لیکن ان کا حوصلہ انتہائی
دیدنی تھا۔ ملاقات ہوئی تو بہت پر عزم اور زندگی سے بھرپور لگے ۔ مگر پھر بھی میری آواز بھرانے لگی تو اپنی بیماری کا بہانہ
بناتے ہوئے انہیں حوصلہ دیا ۔ حالانکہ میں جانتا تھا کہ ویسے تو زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں
ہے اور موت کا ایک دن مقرر ہے مگر پھر بھی میرا مرض جان لیوا نہیں لیکن ان کا مرض
کافی خطرناک سٹیج پر تھا۔میرا حوصلہ نہیں ہوتا تھا کہ ان سے ان کی صحت کے بارے میں
پوچھوں لیکن وہ جب بھی موقع ملتا مجھ سے ضرور پوچھتے اور حوصلہ دیتے تھے۔
اس
سے قبل 2001 میں جب میں نے اڈے پر شاپ بنائی تو کوئی ایسا دن نہ گزرتا تھا جب وہ
میرے پاس آ کر نہ بیٹھے ہوں، گپ شپ نہ کی ہو ۔ میں اگرچہ چھوٹا ہونے کے باعث کچھ
شرم محسوس کرتا تھا مگر وہ ہمیشہ مجھ سے مشورہ مانگ لیا کرتے تھے اور بندہء ناچیز
ان کو اپنی عقل کے مطابق کچھ نہ کچھ بول دیا کرتا تھا وہ غور سے سنتے اس پر کراس
کوئسچن بھی کرتے اور بالآخر کچھ نہ کچھ فیصلہ کر کر اٹھتے۔ میں نے اکثر دیکھا کہ وہ علاقے کے غریب لوگوں
کے بارے میں دکھی رہتے تھے اور ہمیشہ ان کی اپنی استطاعت کے مطابق مدد بھی کرتے
رہتے تھے اور کبھی جتلاتے بھی نہیں تھے۔ بس باتوں باتوں میں ان کی مدد کر کے کے بات کو
گول کر جاتے تاکہ وہ سامنے والا بار بار شکریہ ادا نہ کرے اور شرمندگی محسوس نہ
کرے۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے
گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
گزشتہ روز جب ان کے حرکت قلب بند ہونے کے باعث اس
دارفانی سے رخصت ہونے کی خبر سنی تو یقین
ہی نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
حالانکہ بتانے والا قابل اعتماد بندہ تھا لیکن پھر بھی کال کرکے تصدیق کرنا ضروی
جانا۔ پھر بظاہر تو یقین کر لیا مگر دل ہے کہ مان ہی نہیں رہا کہ وہ زندہ دل انسان
یوں اچانک رخصت ہو جائے گا۔ آج انہیں اپنے سامنے منوں مٹی تلے دفن ہوتے دیکھا مگر
پھر بھی ذہن تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو رہا۔
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی
ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
آخر
میں بس یہ دعا ہے کہ پیارے دوست اصغر ملکانی اللہ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے اور
جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
یہ
بھی پڑھیں:
0 تبصرے