انشائیہ کی تعریف اور انشائیہ کی فنی خصوصیات

تحریر: فاروق شہزاد ملکانی 

انشائیہ کی تعریف اور انشائیہ کی فنی خصوصیات

تعارف: انشائیہ کی تعریف اور انشائیہ کی فنی خصوصیات

 

اس مضمون میں ہم انشائیہ کی تعریف اور انشائیہ کی فنی خصوصیات کے بارے میں آگاہی حاصل کریں گے۔  ہماری کوشش ہو گی کہ ہم آپ کو انشائیہ کے بارے میں اہم معلومات بہم پہنچا سکیں تاکہ اردو ادب کے طلبہ جو انشائیہ اورانشائیہ نگاری کے بارے میں جاننے کی جستجو رکھتے ہیں ان کے ذہن میں کوئی تشنگی باقی نہ رہے۔

 

انشائیہ کی تعریف 

جیسا کہ عمومی طور پر سب جانتے ہیں کہ انشائیہ  عربی زبان کے لفظ  انشاء سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی تخلیق کرنا ،پیدا کرنا ہے۔ انشاء کا اطلاق تخلیقی اور کلاسیکی عربی ادب پر ہوتا ہے۔ پھر جیسے جیسے عربی ادب ترقی کرتا گیا انشاء کا اطلاق تمام تخلیقی ادب پر ہونے لگا۔  اسی طرح اگر انشائیہ کو دیکھا جائے تو اس کے لغوی معنی " عبارت" بیان کئے جاتے ہیں۔  انشائیہ میں انشائیہ نگار کوئی بھی مضمون لکھتے ہوئے اپنے احساسات و جذبات کھل کر بیان کرتا ہے  لیکن اس کے اختتامیہ میں کوئی بھی نتیجہ بیان کرنے کی بجائے وہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس کا نتیجہ خود اخذ کر لے۔  انشائیہ کی ایک خصوصیت جو انشائیہ کو دیگر اصناف سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا کھلا ڈلا انداز تحریر ہے جس میں انشائیہ نگار کے پیش نظر ایسا کوئی مقصد نہیں ہوتا جسے پورا کرنے یا ثابت کرنے کیلئے ثقیل دلائل اور امثال سے کام لے اور قاری ان دلائل اور امثال کو قبول یا رد کرنے سے قبل اچھی خاصی کشمکش کا شکار ہو کر رہ جائے۔

 

انشائیہ کی فنی خصوصیات

انشائیہ کو تحریر کرنے اور اسے ایک مضمون سے انشائیہ بنانے میں انشائیہ کی فنی خصوصیات ہیں جو اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جو کہ مختصر طور پر درج ذیل ہیں۔

 

1۔ انشائیہ تحریر کرنے کیلئے کوئی بات  دل ہی دل میں بنا لینا اور پھر اسے دلچسپ انداز میں اس طرح میں بیان کرنا کہ قاری کی دلچسپی آغاز سے اختتام تک بنی رہے ۔  وہ نہ تو بوریت محسوس کرے اور نہ لاتعلقی کہ وہ تحریر کو درمیان میں ہی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔

 

  تحریر تصنع سے پاک ہو۔ تحریر پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہو کہ انشائیہ  نگار اپنے دل کی بات سہل اور آسان الفاظ میں بیان کر رہا ہو اور  قاری کو پڑھتے ہوئے اپنے ارد گرد کی کہانی اور بپتا محسوس ہو۔

 

3۔ انشائیہ کا انداز تحریر انتہائی اور عام فہم ہو۔ قاری کو منطق اور استدلال سے مرعوب کرنے کی بجائے اسے تحریر سے جوڑ کے رکھے۔  دوسرے معنوں میں اگر یہ کہا جائے کہ قاری کو مرعوب کرنے کی بجائے اسے دلچسپ انداز میں بات کو سمجھنے کا موقع فراہم کرے۔

 

4۔ تحریر کا انداز غیر رسمی ہونا چاہیئے۔ جس طرح عام مضمون میں مکمل طور پر ایک ڈھانچہ ترتیب دیا جاتا ہے اور تمام تحریر کا تانا بانا  اس طرح سے بنا جاتا ہے کہ اسے ایک نتیجے کی جانب گھیر کر لایا جاتا ہے۔ لیکن انشائیہ میں ایسا نہیں کیا جاتا  بلکہ تحریر کو ایک قدرتی بہاؤ کی طرح رہنے دیا جاتا ہے جیسے بارش کے بعد بہنے والا پانے اپنا راستہ خود بناتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ اسی طرح انشائیہ کی تحریر بھی اپنا راستہ خود بناتے ہوئے بڑھتی رہتی ہے۔ لیکن ذہن میں رہے کہ تحریر غیر دلچسپ نہ ہو جائے۔

 

5۔ انشائیہ میں اگر ضروری ہو تو دلچسپ انداز میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس طرح ایک آدمی کسی بھی الجھن کی صورت میں اپنے آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور پھر جواب بھی خود ہی تراش لیتا ہے۔ یہ انداز تحریر کو دلچسپ بنا سکتا ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ ہر تحریر کا حصہ ہو۔ اگر جہاں ضرورت ہو اس انداز تحریر کو شامل کرنے میں کوئی عذر نہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں:

انشائیہ کا مفہوم اور اس کی خصوصیات

صفامروہ اور مسعیٰ: تاریخ و فضیلت - اردو ورلڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے