ریتڑہ مسائل کے گرداب میں تحریر : فاروق شہزاد ملکانی

ریتڑہ مسائل کے گرداب میں تحریر : فاروق شہزاد ملکانی

 

ریتڑہ مسائل کے گرداب میں

تحریر : فاروق شہزاد ملکانی

 

 انڈس ہائی وے کے کنارے آباد قصبہ ریتڑہ چالیس ہزار سے زائد آبادی پر مشتمل ہے۔ ریتڑہ جغرافیائی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ریتڑہ ضلعی یا تحصیل ہیڈکوارٹر تونسہ شریف سے 25 کلومیٹر اور ضلع لیہ کے ہیڈکوارٹر لیہ سے بھی اتنے ہی فاصلے پر واقع ہے۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو ڈویژنل ہیڈکوارٹر ڈیرہ غازیخان اور کے پی کے اہم شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے مساوی فاصلے 110 کلومیٹر پر واقع ہے۔  لیہ تونسہ پل پروجیکٹ بھی ریتڑہ کے مقام پر انڈس ہائی وے سے جوڑا جا رہا ہے۔ یوں ریتڑہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد اس علاقے اور بلوچستان کے لوگوں کا مرکز نگاہ بن جائے گا۔

 

اس تمام تر اہمیت کے باوجود قصبہ ریتڑہ گوناگوں مسائل کا شکار بھی ہے۔ قصبہ ریتڑہ کو یوں تو ہر دور میں نظرانداز کیا جا تا رہا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں پڑوسی حلقے کے ایم پی اے سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو لوگوں کے دلوں میں امیدیں جاگیں کہ شاید اب ان کا وقت بھی آ جائے مگر افسوس سردار عثمان بزدار بھی ہمارے لئے غیر ثابت ہوئے بلکہ میں اگر کہوں کہ دشمن ہی ثابت ہوئے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ کچھ منصوبے جو مرکز سے ایم این اے خواجہ شیراز محمود نے منظور کروائے تھے انہوں نے وہ منصوبے بھی نہ بننے دیئے۔ یوں سردار عثمان بزدار نے یہاں کی عوام کو نہ صرف نظرانداز کیا بلکہ عوام دشمنی بھی کی۔ عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ صرف ان کے خاندان کیلئے سودمند ثابت ہوئی اہل علاقہ نہ صرف ان کے دور میں نظرانداز ہوئے بلکہ آئندہ بھی ان کے باعث نظرانداز ہوتے رہیں گے۔ تونسہ کے نام پر کھربوں روپے کے فنڈز جاری کروائے گئے مگر یہ فنڈز کہاں گئے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

 

 قصبہ ریتڑہ کے  اکثر علاقوں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ سب سے پہلے اگر صاف پانی کی دستیابی کی بات کریں تو یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ ریتڑہ کے کسی علاقے میں صاف پانی دستیاب نہیں۔ یوں تو ریتڑہ میں متعدد واٹرسپلائی اسکیمیں کام کر رہی ہیں۔ پائپ لائینیں بچھائے ہوئے اتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ اب صاف پانی ملنا ناممکن ہو چکا ہے۔ لائینیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گندا پانی ان لائینوں میں شامل ہو کر پینے کے پانی کو آلودہ کر رہا ہے۔ لائنوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مہنگی بجلی سے بھی جان چھڑائی جائے اور ان سکیموں کو سولر توانائی پر منتقل کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے جائیں۔

 

چالیس ہزار سے زائد کی آبادی کے اس قصبے میں ایک بھی کالج یا ہائرسیکنڈری اسکول نہیں ہے۔ میٹرک کے بعد بچوں کو تونسہ شریف جانا پڑتا ہے۔ جس کیلئے والدین کو ماہانہ کم از کم چھ ہزار روپے فی کس صرف کرائے کی مد میں خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اب آپ خود ہی غور کریں کہ مہنگائی کے اس دور میں کتنے فیصد والدین ہیں جو یہ اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ اس لئے اہل اختیار چاہئے کہ یہاں پر ابتدائی طور پر بوائز اور گرلز ڈگری کالجز کی تعمیر فی الفور شروع کی جائے تاکہ بچے کم از کم کالج لیول کی تعلیم تو اپنے گھر کے نزدیک حاصل کر پائیں۔

 

اسی طرح صحت کے حوالے سے اگر بات کریں تو یہاں ایک بنیادی مرکز صحت ہے جو یہاں کی آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہے۔ یہاں ہر وقت شدید رش رہتا ہے۔ لہذا اہل علاقہ کی ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ ریتڑہ میں کم از کم ایک رورل ہیلتھ سنٹر کی منظوری دے کر فوری طور پر کام شروع کیا جائے۔ 

 

ان سب کے ساتھ ساتھ اہل ریتڑہ کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ  نکاسیء آب اور صفائی کا ہے۔ نکاسیء آب  کا موئثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے پورے قصبے اور ملحقہ بستیوں ملکانی، بڈیوالی، بستی زؤر، بستی بٹکل،  فیض آباد بستی ٹبہ ملکانی، نئی آبادی، بستی گودر و دیگر کی گلیاں اور بازار جوہڑوں کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ شہریوں کی  زندگی اذیت سے دوچار ہو چکی ہے۔آمدورفت میں بے پناہ مشکلات کے ساتھ ساتھ یہ جوہڑ مکھیوں اور مچھروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ جس سے موذی امراض تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ سیوریج اور صفائی کے نظام کی تعمیر اور گلیوں کو ٹف ٹائل لگانے کی اشد ضرورت ہے۔  قصبہ ریتڑہ تحصیل تونسہ کے وسط میں واقع ہونے کے باعث تحصیل تونسہ کا حقیقت میں دل کہلانے کا مستحق ہے۔ ریتڑہ کی ترقی حقیقی معنوں میں تحصیل تونسہ کی ترقی شمار ہو گی۔

 

یہ بھی پڑھیں:

لیہ ریتڑہ  پل پراجیکٹ، روڈز کی تعمیر تاخیر کا شکارکیوں؟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے