اشرافیہ کی دم پر
پاؤں آگیا، کڑا احتساب ہو پائےگا؟تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
سانحہ 9 مئی کے بعد حکمران اشرافیہ کی دم پر پاؤں آ گیا ہے۔
جو اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتے تھے ان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جا
رہی ہیں اور ان کے کڑے احتساب کا عندیہ دیا جا رہاہے۔ حکومت اپنے اس عزم کا اظہار
کر رہی ہے کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث عناصر کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا ۔
جبکہ اس دوران انصاف کے ایوانوں سے ان عناصر کو دھڑا دھڑ ضمانتیں بھی تفویض کی جا
رہی ہیں۔ اس صورت میں ایک عام شہری کے دل و دماغ میں یہ خیال توآتا ہے کہ کیا ان
بے لگام گھوڑوں کو کسی آئین و قانون کے تابع لایا جا سکے گا کہ نہیں یا یہ نظام
یونہی بے سروپا ہی چلتا رہے گا۔
جیسا کہ ملک عزیز کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہاں عرصہ دراز سے
دو متوازی نظام چلتے آ رہے ہیں، ایک عام
آدمی کیلئے اور دوسرا اشرافیہ کیلئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا ہر ادارہ اسی
تقسیم کے باعث ان ہردو کلاسز کے ساتھ ان کی حیثیت کے مطابق سلوک روا رکھتا ہے۔ عام
پاکستانی کو قدم قدم پر مشکلات و مسائل کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کا نہ صرف حساب
دینا پڑتا ہے بلکہ ایلیٹ کلاس کے اعمال کو بھی جھیلنا پرتا ہے۔ قصور اشرافیہ کا
ہوتا ہے لیکن سزا عام پاکستانی کو ملتی ہے۔ یہی کیفیت معیشت کے شعبہ میں بھی دیکھی
جا سکتی ہے۔ بجلی ، گیس اور ٹیکس اشرافیہ چوری کرتے ہیں لیکن قیمتیں بڑھا کر اور
اندھا دھند ٹیکس در ٹیکس لگا کر اس کا خمیازہ عام آدمی سے پورا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انصاف کے ایوانوں میں عام آدمی کے کیس
دہائیوں سے التوا کا شکار ہیں ۔ عام پاکستانی انصاف کی راہ تکتے قبر میں اتر جاتا
ہے مگر انصاف فاتحہ خوانی کیلئے بھی نہیں آتا۔ جبکہ اشرافیہ گھر بیٹھے انصاف حاصل
کر لیتی ہے بلکہ ان کیلئے عدالتیں رات کو اور چھٹی کے دنوں میں بھی کھل جاتی ہیں۔
عام پاکستانی اگر پیشی کی ایک پکار پر حاضر نہ ہو تو اس کی ضمانت نہ صرف منسوخ کر
دی جاتی ہے بلکہ سزا سنانے کے ساتھ ساتھ سخت باتیں الگ سے سننا پڑتی ہیں ۔ جبکہ
اشرافیہ کے نمائندگان ملزمان کو یہی جج صاحبان " آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، وش
یو گڈ لک " کہا جاتا ہے اور بغیر ناپ تول کے تھوک کے حساب سے ضمانتیں بھی دے
دی جاتی ہیں۔ یوں احتساب بے چارا ان کا منہ تکتا رہ جاتا ہے۔
9 مئی کے بعد البتہ برائے نام سا فرق ضرور پڑا ہے کہ ان واقعات میں ملوث اشرافیہ کےکچھ عناصر کے خلاف مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔ سانحہ 9 مئی کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں کہا جا رہا ہے کہ ان واقعات میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کو گرفتار کرنا تو درکنار ان پر ایف آئی آر درج ہونا ہی ناممکن تھا مگر اب کچھ (100 فیصد نہیں)لوگوں کے خلاف مقدمات بھی قائم کئے جا رہے ہیں اور ان میں سے کچھ کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کے داماد جو خود سابق وزیر بھی ہیں کو بیٹے سمیت گرفتار کیا گیا، یہ اور بات کہ کچھ وقت بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ ان کی صاحبزادی خدیجہ شاہ جو تحریک انصاف کی متحرک رکن جانی جاتی ہیں کی گرفتاری کیلئے بھی چھاپہ مار کارووائیاں جاری ہیں ، اب یہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں یا اشرافیہ اپنا کرشماتی کردار ادا کرتی ہے یہ تو اب کچھ دنوں تک واضح ہو جائے گا۔ اسی طرح بہت سے دیگر کرداروں کے خلاف بھی مقدمات کا اندراج ہو چکا ہے اور وہ قانون کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ملک دشمن کارووائیوں میں شامل اشرافیہ کے خلاف کارووائی ہو پائے گی یا یہ بھی حسب سابق صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین ثانی
0 تبصرے