تحریر: فاروق شہزاد ملکانی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی کال پر 28 اکتوبر کو شروع ہونے والا لانگ مارچ ابھی تک اسلام آباد نہیں پہنچ سکااور ایک اندازے کے مطابق ابھی بھی چار پانچ دن مزید لگ سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ اگر اتنے دن راستے میں ہی گزارنا تھے تو لانگ مارچ شروع کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟
اسلام آباد پہنچنے میں جان بوجھ کر دیر کیوں کی جا رہی ہے؟
عمران خان جلدی میں شروع کیا گیا لانگ مارچ کسی منطقی انجام تک پہنچانے میں دیر کیوں کر رہے ہیں؟
انہیں کس بات کا انتظار ہے کہ وہ صحیح وقت پر یا اپنے طے کردہ وقت پر اسلام پہنچنا چاہتے ہیں؟
کیا وہ اپنے کارکنوں کو تھکا کر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے مشکلات تو نہیں بڑھا رہے؟
یہ دیکھنے میں تو صرف پانچ سوالات ہیں مگر اصل میں یہ ایک پوری داستان ہے۔ جسے بیان کرنے کیلئے طویل نشست کی ضرورت ہے۔ لیکن میں کوشش کروں گا کہ آپ کو مختصرطور پر خلاصہ بیان کر سکوں۔

سب سے پہلے آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ خان صاحب کو لانگ مارچ شروع کرنے کی جلدی کیوں تھی؟ اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرنے کیلئے آپ کو بتاتا چلوں کہ عمران خان نے یہ لانگ مارچ شروع کرنے سے پہلے بعدکی تاریخ کا اعلان کیا تھا اور پھر ارشد شریف کے کینیا میں بہیمانہ قتل کے بعد اس کے نماز جنازہ سے پہلے ہی عجلت میں لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیا اور اعلان کے وقت یہ وضاحت کرنا بھی ضروری سمجھی کہ اس لانگ مارچ سے شرکاء محظوظ ہوں گے اور یہ لانگ مارچ پرامن ہو گا۔ خان صاحب نے اس کیلئے انٹرٹینمنٹ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ ان کے اب تک کے لانگ مارچ سے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو خوشی کے لمحات فراہم کر رہے ہیں۔ جو ایک بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن کیا یہ انٹرٹینمنٹ ایک ایسے موقع پر جب ان کے دوست سمجھے جانے والے صحافی ارشد شریف کو بہیمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ کچھ روز سوگ میں گزار کر پھر یہ لانگ مارچ شروع کیا جا تا ۔
یہ تو ہیں وہ باتیں جو ایک عام پاکستانی سوچ رہا ہے مگر بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں جو کچھ خاص حلقوں یا معلومات رکھنے والے طبقے میں گردش کر رہی ہیں۔ ان خاص لوگوں کی رائے ہے کہ ملک میں کچھ ایسا ہونے جا رہا ہے کہ جس سے بچنے کیلئے خان صاحب اپنے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اگر وہ کچھ ہی دن دیر کر دیتے تو جو ہونے جا رہا ہے وہ کچھ دن پہلے ہی ہو جاتا اور پھر اگر اس کا اعلان ہو جاتا تو عمران خان کیلئے اس کے خلاف آواز اٹھانا مشکل ہو جاتا۔ دیگر یہ بھی کہ طاقتور طبقے ان کے خلاف بھی کچھ اقدامات کرنے کے قریب تھے جن سے بچنے کیلئے وہ بنی گالہ چھوڑ کر پنجاب میں آ وارد ہوئے ہیں اور وہ تب تک بنی گالہ نہیں جائیں گے جب تک انہیں کہیں سے یقین دہانی نہیں مل جاتی کہ اس کے خلاف وہ اقدامات نہیں کئے جائیں گےجن کا فیصلہ مبینہ طور پر گزشتہ ماہ ایک اہم اجلاس میں ہو ا تھا۔ جس کی اطلاع کچھ خاص ذرائع سے یا ان کی چھٹی حس نے انہیں فراہم کی تھی۔
اب آتے ہیں دوسرے سوال کی جانب کہ عمران خان اسلام آباد پہنچنے کیلئے جان بوجھ کر دیر کیوں کر رہے ہیں؟ اس کیلئے آپ کو بتاتا چلوں کہ ایک سبب تو یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کسی ایک ایونٹ کے ہونے تک اور کسی یقین دہانی کی فراہمی تک اپنا زیادہ سے زیادہ وقت پنجاب میں گزارنا چاہتے ہیں۔ جبکہ کچھ خاص ذرائع یہ بھی کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ وہ حکومت اور ایسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کیلئے کسی خاص موقع کی تلاش میں ہیں۔ ایک خاص تقرری جو کچھ ہی روز میں یقینی طور پر ہونے والی ہے اسے اپنی منشا کے مطابق کروانے کیلئے ان ہی دنوں میں اسلام آباد پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب اس تقرری کیلئے سمری بھیجنے کا امکان ہے۔
اگلا سوال بھی کچھ اسی سوال سے ملتا جلتا ہے جس کا یہی جواب ہے بنتا ہے ۔ یہ میں آپ کو کچھ ایسے ممکنات کے بارے میں بتا رہا ہوں جس بارے میں بڑی شدومد کے ساتھ قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ مگر کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو میں آپ کو آخر میں چل کر بتاؤں گا جس سے آپ کو یہ ساری کہانی اور گورکھ دھندہ سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
اب سوال آتا ہے کہ تحریک انصاف اپنے کارکنوں کو تھکا کر اپنے مقاصد کے حصول میں خود ہی رکاوٹ تو نہیں بن رہی۔ اس بارے میں کہتا چلوں کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لشکر کشی کر کے سیاسی مقاصد حاصل کئے جا سکیں تا ہم اس طرح مہم جوئیوں سے کچھ اور لوگ ضرور فائدے اٹھائے ہیں لیکن سیاست ، جمہوریت اور سیاستدانوں کا کبھی فائدہ نہیں ہوا۔ اس طرح کی لشکر کشی سے ہمیشہ جمہوریت کا تختہ الٹا گیا ہے بلکہ اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ ملکوں کو بہت ہی بھیانک نتائج سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ مصر، شام لبنان عراقاور دیگر مثالیں موجود ہیں کہ ملک دشمن عناصر درپردہ اس طرح کی سیاسی اور جمہوری تحریکوں کی آڑ میں اپنے مزموم مقاصد کے حصول کیلئے کھیل رچاتے ہیں اور پھر اچھے خاصے خوشحال ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کل تک جن کی کرنسی ڈالر کو ٹکر دے رہی تھی آج ٹکے بھاؤ بک رہی ہے۔ تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے۔ غربت عام ہو چکی ہے اور جان و مال کا تحفظ بھی ناپید ہو چکا ہے۔
عمران خان کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہو گا۔ اس لئے میرا گمان ہے کہ وہ صرف لشکر کشی سے سب کچھ تہہ و بالا کرنے کی بجائے آعصابی جنگ لڑ رہے ہیں کہ کسی طرح وہ اپنے مدمقابل کو ڈھیر کر سکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ آپ نے دیکھا ہو گا کہ عمران خان خود بھی اپنی کچھ غلطیاں سدھارنے کی کوشش کر رہے ہیں یا اگر ایسا کہیں کہ وہ اعصاب کی اس جنگ میں کچھ بوجھ اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر کہیں ایمرجنسی لینڈنگ کرنا پڑے تو بوجھ کے باعث کریش لینڈنگ نہ ہو جائے وہ کوئی ایک سائیڈ محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کوشش میں وہ اپنے بیانئے سے بھی پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
لانگ مارچ شروع کرنے کا ان وقت اگر کچھ خاص مقاصد کیلئے تھا تو اس میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلےکچھ ہی روز میں ہو جائے گا۔ حکومت اور ان کے مخالفین ان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا فسانہ ہے یہ بھی آنے والے دنوں میں مزید کھل کر کر سامنے آ جائے گا۔ کیونکہ اعصاب کی اس جنگ میں کوئی ہارے گا تو کسی کی جیت بھی ہو گی۔ مگر میری طرح اکثر پاکستانیوں کی یہ خواہش ہو گی کہ جیت یا ہار چاہے کسی کی بھی ہو مگر وطن عزیز کی جیت ہر صورت میں ہونی چاہیئے۔ کیونکہ جس طرح کے حالات سے ہمارا ملک اور اس کی معیشت گزر رہی ہے اسے کسی سانحے سے سہارا دینا مشکل ہو گا بلکہ استحکام ہی اسے سہارا دے پائے گا ۔
0 تبصرے